. FACTORS PROMOTING PEACE AND SUSTAINABLE DEVELOPMENT IN A NATION, COMMUNAUTE.ENTITE OR IN OUR SURROUNDINGS WHERE WE LIVE LIKE OUR COUNTRY THE DRC ARE “MORALITY, HOSPITALITY, HUMILITY



بول ری گڑیا بول ذرا۔۔۔۔
یہ بول ہم میں سے بہت سے لوگوں نے سنے ہونگے، جس میں ایک پاکستانی اداکارہ اپنی ننھی سی گڑیا سے بہت پیار کرتی اور بار بار اس سے مخاطب ہو کر کہتی



بول ری گڑیا بول ذرا
چپ رہتے تجھے برسوں بیتے
آج تو یہ لب کھول
بول ری گڑیا بول



اس گانے کا ذکر کرنا اس لئے ضروری لگا، کیوں کہ حوا کی جس بیٹی کی داستان آپ سے شئیر کرنی ہے، وہ بھی بچپن میں



اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس گانے کو اکژ گنگناتی تھی، مگر تقدیر نے اسے اس طرح سے الجھا کر رکھ دیا ہے کی شادی شدہ ہونے اور دو بچیوں کی ماں ہونے کہ باوجود آج بھی دل کہ ہاتھوں مجبور ہے اس گانے کو گنگنانhttp://www.worldpulse.com/node/54126ے کے لئے، کیونکہ آج اس کی اپنی ننھی گڑیا خاموش ہے۔



ماں جیس



ی شفقت اور پیار تو بچپن سے ہی عورت کے دل میں موجود ہوتا ہے جسے وہ اپنے گڑیا کے ساتھ جتاتی ہے، اور یہی پیار بعد میں ممتا کہلاتا ہے



خدا دے کے بھی آزماتا ہے اور نا دے کے بھی، اسلام آباد کے ایک دیہی علاقے میں رہنے والی بے بس ماں یاسمین بی بی ،



جسے قدرت نے سب کچھ دے کر بھی کڑی آزمائش میں ڈال دیا۔
یاسمین بی بی بچپن میں اپنی ننھی گڑیا سے کھیلتے کھیلتے جب جوانی کی دہلیز پر پہنچی تو پیا دیس سدھار گئی۔ زندگی میں ہر خوشی تھی سب میسر تھا، بڑا بنگلہ نہ سہی مگر اپنا گھر تھا، سکون تھا، کمی تھی تو اولاد جیسی نعمت کی۔ بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد خدا نے یاسمین بی بی کو ایک ننھی پری سے نوازا جس کے آتے ہی اس کی زندگی مکمل ہو گئی، کسی چیز کی حسرت باقی نہ رہی۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ عرصے ہی میں معلوم ہوا کہ یاسمین بی بی کی ننھی بیٹی بھی گڑیا کی طرح سننے، بولنے اور خود سے ہلنے جلنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یاسمین بے چاری کی زندگی ایک جگہ تھم کے رہ گئی۔ اگر کوئی فرق تھا تو اتنا کہ یاسمین بی بی کی بیٹی آمنہ سانس لیتی ہے، سوتی جاگتی ہے۔ مگر زندگی کو عام بچوں کی طرح محسوس کرنے سے قاصر ہے۔ یاسمین بی بی کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ننھی آمنہ کو زندگی کی ہر خوشی مہیا کرے۔ مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ، جہا ں دو وقت کی روٹی نصیب ہونا ایک غریب انسان کہ لیے بہت مشکل ہے، وہا ں ایک غریب ماں اپنی اولاد خاص کر معذور اولاد اور وہ بھی بیٹی، کوکس طرح پالے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، مگر ہماری حکومت ایسے بچوں کو گھٹ گھٹ کے جینے اور سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ اس لئے حکومت سے امید لگانا بے کار ہے۔
یاسمین بی بی کو خدا نے ایک اور ننھی سی گڑیا سے نوازا، جو بہت چل بلی، شرارتی، اور صحت مند ہے، جو زندگی عام بچوں کی طرح گزارتی ہے۔ سکول بھی جاتی ہے، رنگ برنگی کپڑوں کے لیے ماں سے ضد بھی کرتی ہے، جو زندگی کے ہر پہلو سے لطف اندوز ہوتی ہے، کوئی تکلیف ہو تو ماں سے کہتی ہے، ماں سے ناراض بھی ہوتی ہے، مگر افسوس آمنہ کو اگر کبھی درد بھی ہو تو وہ ماں کو بتا نے سے قاصر ہے ، اسے نہیں معلوم سردی گرمی کا، نا ہی اسے معلوم ہے کی تتلییاں رنگین ہوتی ہیں، وہ تو بس زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ ذرا اپنے آپ کو اس ماں کی جگہ رکھ کے سوچیں جو دو چکیوں میں پس رہی ہے، جس نے اپنی معذور بیٹی کو بھی دیکھنا ہے اور اپنی تندرست بیٹی کی بھی دیکھ بھال کرنی ہے۔ اپنی چھوٹی بیٹی کی وجہ سے اپنی بڑی بیٹی کو نظرانداز نہیں کرنا، بے شک چند لمحو ں کے لیے خود کو یاسمین بی بی کی جگہ رکھ کے سوچیں تو سانس لینا بھی مشکل لگتا ہے، کیسے بلا امتیاز دو مختلف بچوں کو ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رکھا جائے، دونو ں کو ایک جیسا پیار دیا جائے، معذور بیٹی کی معذوری کا کوئی مذاق نہ اڑائے اور تندرست بیٹی کی سوچ بھی حاوی نہ ہو۔
یاسمین بی بی اور مسکین احمد ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر خدا نے انہیں پیار بھرا دل بھی دیا ہے جو اس غربت میں بھی اپنی معذور اور تندرست بچی میں کوئی فرق نہیں رکھتے، اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بچیوں کی ہر ضرورت کو پورا کریں۔
یاسمین بی بی اپنی اس ننھی گڑیا سے بے حد پیار کرتی ہیں، اور ہر وقت خدا سے اس کی تندرستی کی دوا کرتی ہیں، ہر ڈوبتا سورج ان کی امیدوں کو ڈبو نہیں پاتا، مگر ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ان کی امیدیں اور بھر جاتی ہیں، اس بے بس ماں کو نہیں پتا کہ اس کی ننھی گڑیا کبھی بول بھی پا ئے گی کہ نہیں، وہ اپنی ننھی بیٹی کو کبھی ڈولی میں بٹھا بھی پائے گی کہ نہیں، مگر وہ اپنے خدا سے نا امید نہیں، اسے پورا بھروسہ ہے کہ آمنہ ایک دن اپنی ماں کو پکارے گی اور بھاگتی ہوی آئے گی اور ماں سے لپٹ جائے گی۔ خدا کی ذات بہت رحیم ہے، وہ اس بے بس گھر پر ضرور رحم کرے گا۔
ایسے بہت سے گھر ہیں جہا ں زندگی بے بسی کا شکار ہے، غربت اور جہالت کی وجہ سے لوگ نہ صرف خود خود کشی کرنے پر مجبور ہیں، بلکہ اپنے معصوم بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ہمیںاس رویے کو روک کر زندگی کی امید کیطرف لانا ہو گا۔ بے بسی کی ایسی ہی ان گنت کہانیاں روزانہ ہم اپنے ارد گرد بھی دیکھتے ہیں اور اخبارات میں بھی پڑھتے ہیں، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ انہیں پڑھ کر افسوس کا اظہار کریں اور بھول جائیں، بلکہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں خود میدان میں آ کر زندگی کی راہ میں آنے والی دشواریوں
سے خود مقابلہ کرنا ہو گا، ورنہ بے بسی اور لاچارگی کے اس کہانی گھر میں اگلی کہانی ہماری بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے ، لیکن پانی ابھی سر سے نہیں گزرا۔

First Story
Like this story?
Join World Pulse now to read more inspiring stories and connect with women speaking out across the globe!
Leave a supportive comment to encourage this author
Tell your own story
Explore more stories on topics you care about