Gender and society Climax as Work: Gender Labor, and the Gender Gap in Orgasms ( Nepal)



مائے نی میں کینوں اکھاں۔۔۔۔۔
ماں جو اپنے بچوں کی ان کہی بھی سن لیتی ہے ، اب وہ بھی نہیں سنتی، عورت ازل سے مسافر ہے ابد تک رہے گی۔ ہمارہ معاشرہ دو تہذیبوں کی چکی میں پس رہا ہے ایک اسلامی تصور حیات، تہذیب ہ معاشرت کا احیاء اور دوسرا ہندو اور مغربی طرز، آسان الفاظ میں عورت مغربیت اور مشرقیت کے جال میں پھس گئی ہے، ان دو تہذیبو ں نے ہمارے معاشرتی وجود کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمیں اسلام کے حوالے سے تو عورت کے تمام فرائض یاد آتے ہیں مگر ہم اس کے حقوق بھول جاتے ہیں، اقبال نے عورت کو کچھ یوں بیان کیا
وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ
مگر اس زن کا وجود خود بے رنگ کیوں ہے؟ کیا کبھی سوچا، یا سوچنے کی کوشش کی، نہیں کی ہو گی اتنا ٹائم جو نہیں ہوتا ہمارے پاس جو اپنے علاوہ کسی کے بارے میں سوچیں، عورت مجبوری اورسمجھوتے کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے۔ جو ساری عمر خود سے لڑتی ہے اپنے گھر اور اس کی خوشیوں کے لیے،بیٹی جس کو خود خدا نے رحمت کا درجہ دیا ہے اور فرمایا۔ کہ جب میں کسی پے رحیم ہوتا ہوں تو اسے بیٹی عطا ء کرتا ہوں،
بیٹی تو یوں بھی بوجھ سمجھی جاتی ہے لیکن اگر معذور ہو تو والدین کے لیے یہ رحمت زحمت بن جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کے تما بچے والدین کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں، ہمارے معاشرے پر مردوں کے سماجی اور معاشی غلبے نے والدین کی یہ سو چ بھی بدل ڈالی، لوگ بیٹوں کی خواہش کرنے لگے،تعلیم اور صیحت جیسی بنیادی ضرورتوں میں بھی بیٹے سرفہرست ہو گئے اور یوں یہ اس رواج نے مضبوظ جڑیں اختیار کر لی، اسلام اباد کے کچھ دیہی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا جہا ں خدا کی یہ رحمت معذوری کی شکل میں ایک بے کار سامان کی طرح گھر کے ایک کونے میں پڑی دیکھی، بحثیت عورت سمجھ نہ ایا کے عورت کی اس بے چارگی کو کیا نام دوںِ اج کے دور میں جہاں عورت ایک صحیح و سالم زندگی گزارنے کے باوجود بھی سڑکوں پے اتر ائی تا کہ مردوں سے اپنے خودمختارانہ اختیار چھین سکے یہ عورت اپنے مظلوم ہونے کے نعرے مارتی نظر اتی ہے کیا کبھی ہم نے سوچا ان کے بارے میں جن سے زندگی کچھ ناراض سی نظر اتی ہے۔کتنا دکھ ہوتا ہوگا جب ان کے اپنے ان کی معذوری کو ان کا قصور ٹہرا کہ دہتکارتے ہونگے۔
نعمان ، الیبہ اور مریم پیدائشی معذور ہیں ان کہ والد نے اپنی بد قسمتی کا رونا روتے ہوے کہا کہ ‘ نعمان میرا بڑا بیٹا ہے، اور پہلی الاد ہونے کی وجہ سے میں نے اس کے علاج میں کوئی کمی نا چھوڑی، مگر کچھ حاصل نا ہو سکا، تو سوچا جب بیٹا صحت یاب نہ ہو سکا تو بیٹیوں کا علاج کرانے سے کیا حاصل ہوگا’
یہ ایک باپ کے کہے الفاظ تھے، اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کے اسے اپنی اولاد سے کتنا پیار ہے، مگر افسوس اولاد میں بیٹیوں کو شامل کرنا بھول گیا، ایک اور عورت کی بے بسی کو دیکھا جس کی ماں اس سے بہت پیار کرتی ہے، عائشہ خاتون کی والدہ نے مجھے اپنا دکھڑا کچھ اس طرح سنایا ‘میری بس یہی دعا ہے کہ خدا میرے مرنے کے دو دن پہلے اس کو موت دے دے’
ماں جو اولاد کی خاموش سسکیاں بھی سن لیتی ہے مگر عائشہ کی انکھوں میں دم توڑتے خواب نا دیکھ سکی، عائشہ کو بڑا بخار ہوا تھا جو بگڑ کر اس کی سنے اور بولنے کی طاقت لے گیا، عایشہ 36 سال کی ہے مگر معذوری یا یو ں کہہ لیں کہ ماں باپ کی غفلت نے اس سے زندگی کی بہت سی خوشیاں چھین لی،
یہ کہانیاں یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ۔ قسمت کے کھیل بہت اگے تک جاتے ہیں، بری امام کی مقمیم نسیم بی بی اور یاسمین بی بی جن سے قدرت نے انکھو ں کا نور چھین لیا، اور قد میں بھی کچھ نا انصافی کر دی، زندگی کو خود مختار ہو کہ جینے کہ لیے بہت پر عزم ہیں، اور زندگی کے ہر کڑے سے کڑے امتحان سے گزرنے کے لیے تیار، یہ جانتی ہیں کہ معذوری نے ان کو زندگی کی دور میں بہت پیچھے چھوڑ دیا، ان کے لیے کوئی نہیں جو لڑے، مگر لڑنا تو خود ان کو ہے کیو ں کے جینا بھی تو ان کو ہے امجد اسلام امجد نے زندگی کی اس کشمکش کو لفظوں کی بندش میں پرویا ہے
وقت کی عدالت میں
زندگی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں ایک سوالنامہ ہے
کس نے بنایا ہے
کس نے لیا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آیا ہے
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں، سب سوال مشکل ہیں
اپنے اپنے گھروں میں حوا کی یہ بیٹیاں زندگی کی بہت سی خوشیوں سے محروم زندگی کے دن گن رہی ہیں،نا ہی ان کو زندگی کی اسایش نصیب ہے نا ہی شادی جیسے خوبصورت بندھن کی آس، اپنی انکھو ں میں درد بھرے آنسوں لیے حواکی اس بیٹی نے جینا ہے ان کی خاموش سسکیوں کی آواز ماں نہیں سن پا رہی، تب ہی شاید مایوس ہو کے ایک خاموش سوال کر رہی ہیں، مائے نی میں کینوں اکھاں۔۔۔۔۔۔۔

Like this story?
Join World Pulse now to read more inspiring stories and connect with women speaking out across the globe!
Leave a supportive comment to encourage this author
Tell your own story
Explore more stories on topics you care about